(Taleem e niswan )تعلیم نسواں
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔ “ ہمارے پیارے رسول اکرم کے اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔ دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس سے تمام افراد تعلیم یافتہ نہ ہوں، ہمارے ملک میں مرد کی تعلیم کو تو بہت اہمیت حاصل ہے ہے لیکن کیا تعلیم نسواں کے لیے لوگوں کی مخالفت ابھی تک ختم نہیں ہوئی ۔ جبکہ کسی بھی معاشرے کی اقدار کو محفوظ رکھنے ، نسل انسانی کو ترقی دینے اور مہذب قوم بنانےکے لیے عورت کی تعلیم و تر بیت لازمی امر ہے
تعلیم نسواں کے مخالفین کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب محصول معاش مردوں کے ذمہ ہے تو عورتوں کو تعلیم دلوانے کی کیا ضرورت ہے ہے تو اس کے جواب میں
صرف یہ کہنا ہی کافی ہو گا کہ بے شک حصول معاش زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے مگر وہ مرد بھی موجود ہیں جو اپنے ؟ دستخط کرنا بھی نہیں جانتے اور تعلیم یافتہ لوگوں سے کہیں زیادہ دولت مند ہیں ۔ دراصل تعلیم کا مقصد حصول معاش نہیں علم کا مقام اس سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ علم تو انسان کے ذہن اور دماغ کو وسعت بخشتا ہے۔ علم ایک مشعل ہے جس کی روشنی میں زندگی کے نشیب و فراز طے کیے جاتے ہیں۔ علم انسان میں خود آگاہی پیدا کرتا ہے۔ علم کے ان فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالنا دشوار نہیں ہے کہ اس کی ضرورت ہر انسان کو یکساں ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ بلکہ مردوں کے بجائے عورتوں کے لیے تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ عورتوں کے ذمہ ایک اہم فریضہ نسلِ انسانی کی تربیت ہوتی ہے۔ یہ مثل مشہور ہے کہ پہلا سبق ماں کی گود. کیونکہ پیدائش سے لے کر زندگی کے ہر مر حلے پر باپ کی نسبت ماں کے ساتھ بچے کا تعلق زیادہ قریبی اور گہرا ہوتا ہے، وہ اپنے بچے کی تربیت اسی صورت میں احسن طریقہ سے کر سکتی ہے جبکہ وہ خود بودوباش کے طریقوں سے واقف ہوگی۔ صفائی اور پاکیزگی کے متعلق علم رکھتی ہوگی ۔ مذہبی نا تعلیم سے بہرہ در ہوگی اور جدید دور کے تقاضوں سے واقف ہوگی۔ ایک جاہل عورت کے پاس اس قسم کی تربیت دینے کا سلیقہ نہیں اس کے برعکس ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال مان اب اپنے۔ بچے کی پرورش و تربیت کسی اصول کے تحت کرے گی، وہ اپنے بچوں کو نہ صرف اسلام کے زریں اصولوں سے روشناس کرائے گی بلکہ اپنے بچوں کی تربیت اس طریقہ سے کرے گی کہ وہ جدید تقاضوں کو پورا کر سکیں۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پچھلے زمانوں میں بھی تو پیچھے جاہل ماؤں کی گود میں تربیت پا کر عظیم کارنامے سر انجام دیتے رہے ہیں تو یہاں یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پہلے کی دنیا موجودہ دور کے تقاضوں سے نا آشنا تھی اور ان کی زندگی جدید ایجادات نہ ہونے کی وجہ سے سادہ تھی۔ اُس زمانے کی ضروریات زندگی موجودہ دور کی ضرورتوں سے مختلف تھیں۔ مگر موجودہ دور جدید تقاضے اور نت نئی ضرورتیں لے کر آیا ہے جن کو پورا کرنے کے لیے بچوں کی تربیت نئے اصولوں پر کرنا ضروری ہے اور اس فرض کو ایک تعلیم یافتہ ماں سے زیادہ بہتر طریقے کوئی اور ادا نہیں کر سکتا ۔
نہ صرف بچوں کی نگہداشت و تربیت کے لیے تعلیم ضروری ہے بلکہ زندگی کے ہر مر حلے پر عورت کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ عورت و مرد زندگی کی گاڑی کے پہیے ہیں۔ صرف ایک طاقت ور پہیے سے گاڑی نہیں چل سکتی جب تک کہ دوسرا پہیہ بھی مضبوط نہ ہو ۔ ایک جاہل عورت کی ذہنی سطح کِسی صورت بھی ایک تعلیم یافتہ مرد کی ذہنی سطح کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اس وجہ سے وہ کبھی بھی اپنے مرد کے لیے ممد و معاون ثابت نہیں ہوگی اور نہ ہی مرد کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اس سے مشورہ طلب کر سکتا ہے کیونکہ ایک جاہل عورت شود مند مشورہ دینے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ایک تعلیم یا فتنہ عورت ہر قسم کے معاملات کو خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکتی ہے اور زندگی میں کسی کی محتاج نہیں رہتی :
تعلیم نسواں کے مخالفین کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب محصول معاش مردوں کے ذمہ ہے تو عورتوں کو تعلیم دلوانے کی کیا ضرورت ہے ہے تو اس کے جواب میں
صرف یہ کہنا ہی کافی ہو گا کہ بے شک حصول معاش زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے مگر وہ مرد بھی موجود ہیں جو اپنے ؟ دستخط کرنا بھی نہیں جانتے اور تعلیم یافتہ لوگوں سے کہیں زیادہ دولت مند ہیں ۔ دراصل تعلیم کا مقصد حصول معاش نہیں علم کا مقام اس سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ علم تو انسان کے ذہن اور دماغ کو وسعت بخشتا ہے۔ علم ایک مشعل ہے جس کی روشنی میں زندگی کے نشیب و فراز طے کیے جاتے ہیں۔ علم انسان میں خود آگاہی پیدا کرتا ہے۔ علم کے ان فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالنا دشوار نہیں ہے کہ اس کی ضرورت ہر انسان کو یکساں ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ بلکہ مردوں کے بجائے عورتوں کے لیے تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ عورتوں کے ذمہ ایک اہم فریضہ نسلِ انسانی کی تربیت ہوتی ہے۔ یہ مثل مشہور ہے کہ پہلا سبق ماں کی گود. کیونکہ پیدائش سے لے کر زندگی کے ہر مر حلے پر باپ کی نسبت ماں کے ساتھ بچے کا تعلق زیادہ قریبی اور گہرا ہوتا ہے، وہ اپنے بچے کی تربیت اسی صورت میں احسن طریقہ سے کر سکتی ہے جبکہ وہ خود بودوباش کے طریقوں سے واقف ہوگی۔ صفائی اور پاکیزگی کے متعلق علم رکھتی ہوگی ۔ مذہبی نا تعلیم سے بہرہ در ہوگی اور جدید دور کے تقاضوں سے واقف ہوگی۔ ایک جاہل عورت کے پاس اس قسم کی تربیت دینے کا سلیقہ نہیں اس کے برعکس ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال مان اب اپنے۔ بچے کی پرورش و تربیت کسی اصول کے تحت کرے گی، وہ اپنے بچوں کو نہ صرف اسلام کے زریں اصولوں سے روشناس کرائے گی بلکہ اپنے بچوں کی تربیت اس طریقہ سے کرے گی کہ وہ جدید تقاضوں کو پورا کر سکیں۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پچھلے زمانوں میں بھی تو پیچھے جاہل ماؤں کی گود میں تربیت پا کر عظیم کارنامے سر انجام دیتے رہے ہیں تو یہاں یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پہلے کی دنیا موجودہ دور کے تقاضوں سے نا آشنا تھی اور ان کی زندگی جدید ایجادات نہ ہونے کی وجہ سے سادہ تھی۔ اُس زمانے کی ضروریات زندگی موجودہ دور کی ضرورتوں سے مختلف تھیں۔ مگر موجودہ دور جدید تقاضے اور نت نئی ضرورتیں لے کر آیا ہے جن کو پورا کرنے کے لیے بچوں کی تربیت نئے اصولوں پر کرنا ضروری ہے اور اس فرض کو ایک تعلیم یافتہ ماں سے زیادہ بہتر طریقے کوئی اور ادا نہیں کر سکتا ۔
نہ صرف بچوں کی نگہداشت و تربیت کے لیے تعلیم ضروری ہے بلکہ زندگی کے ہر مر حلے پر عورت کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ عورت و مرد زندگی کی گاڑی کے پہیے ہیں۔ صرف ایک طاقت ور پہیے سے گاڑی نہیں چل سکتی جب تک کہ دوسرا پہیہ بھی مضبوط نہ ہو ۔ ایک جاہل عورت کی ذہنی سطح کِسی صورت بھی ایک تعلیم یافتہ مرد کی ذہنی سطح کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اس وجہ سے وہ کبھی بھی اپنے مرد کے لیے ممد و معاون ثابت نہیں ہوگی اور نہ ہی مرد کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اس سے مشورہ طلب کر سکتا ہے کیونکہ ایک جاہل عورت شود مند مشورہ دینے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ایک تعلیم یا فتنہ عورت ہر قسم کے معاملات کو خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکتی ہے اور زندگی میں کسی کی محتاج نہیں رہتی :